گزشتہ روز تین حکومتی زعما نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ شریف اور زرداری خاندان ملک میں جدید کرپشن کے بانی ہیں، حدیبیہ سے شروع ہونے والامنی لانڈرنگ کا سفر ہل میٹل سے ہوتے ہوئے آصف زرداری کے اومنی گروپ اور شہباز شریف کے ٹی ٹیزاور اکاؤنٹس تک پہنچ گیا ہے۔
شریف اورزرداری خاندان نے بدعنوانی، لوٹ مار اور دولت کی منتقلی کے لیے ایک ہی طریقہ کاراپنایا، احتساب کا عمل شفاف انداز میںآگے بڑھایا جا رہا ہے، اس میں کسی سے انتقام نہیں لیا جا رہا ہے، بدعنوانی کے خلاف جنگ تمام طبقات کی جنگ ہے،قوم‘ تمام اداروں اور طبقات کو وزیراعظم عمران خان کا اس ضمن میں ساتھ دینا چاہیے۔
حکومتی وزراء بادی النظر میں جو انکشافات میڈیا پر کررہے ہیں اپوزیشن جماعتوں، میڈیا اور ماہرین قانون کے بعض حلقوں کے مطابق ان میں وہی پرانی باتیں بھی شامل ہیں ہیں جن کی ماضی کے کئی ہائی پروفائل کیسز کے دوران بازگشتیں بھی سنائی دیتی رہی ہیں، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پاناما کیس مختلف النوع اور انتہائی سنگین الزامات کے ایک وسیع سلسلے سے مربوط تھا، جس کے دس والیوم عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کیے گئے۔
قانون و انصاف کی رو سے اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے کہ کرپشن ،منی لانڈرنگ اور دیگر سنگین کیسز پر میڈیا ٹرائل کا تاثر جانے کے بجائے یہی انکشافات، دلائل ،دستاویزات اور قرائنی شہادتیں عدلیہ کے سامنے لائی جانی چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی صاف ظاہر ہوجائے۔سیاسی کشمکش اور سیاسی و سماجی نظام کو کچھ اسپیس ملے، نیب اپنا کام کرے عدالتیں قانون وآئین کے مطابق فیصلے کریں، کیونکہ ان ساری باتوں ،الزامات اور انکشافات کا فیصلہ عدلیہ نے ہی کرنا ہے ، چنانچہ فہمیدہ سیاسی و قانونی حلقوں کی یہ رائے صائب ہے کہ بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے تصور پر عمل کیا جائے۔
رات دن کیسز پر بحث اور آرا و محاذ آرائی ، شعلہ نوائی اور اشتعال انگیز بیانات سے عوام شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں، حکومت کی اولین توجہ بیروزگاری ،مہنگائی، جرائم و دہشت گردی کے اٹھنے والے نئے فتنوں کا سدباب جب کہ سیاسی رواداری کا ماحول سازگار کرے۔ مقدمات کی سماعت کے لیے نیب کو ایک آزاد ایگزیکٹو ادارہ کے طور پر اپنا کام کرنے دیا جائے، تاکہ یہ تاثر ہی نہ رہے کہ احتساب کی جگہ انتقام لیا جارہا ہے ۔ بلاشبہ حکومت جس مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میںآئی ہے، اس کا بنیادی نعرہ کرپشن کا خاتمہ ، عوامی فلاح وبہبود ، فرسودہ اور کرپٹ نظام کی مکمل تطہیر اور نیا پاکستان ہے۔
لیکن ان مقاصد کی تکمیل اکیلے میڈیا پر اعلان جنگ سے کیسے ممکن ہے۔تبدیلی کا غیر معمولی پروگرام وقت مانگتا ہے، اور وقت تیزی سے رخصت ہورہا ہے، معیشت بحرانی حالت میں ہے، چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جن قانونی معاملات کا فیصلہ بالآخر آزاد عدلیہ کی ذمے داری ہے اس دائرہ کار میں حد درجہ احتیاط لازم ہے۔ حکمراں اپنی توجہ گڈگورننس پر مرکوز کریں ۔ از سر نو تحقیقات سے حاصل ہونے والی معلومات، ٹھوس شواہد ، دستاویزات اور کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت عدلیہ کے روبرو پیش ہوں۔ تفتیش اور پراسیکیوشن کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے حال ہی میں چند چشم کشا پسند ونصاح جاری کیے ہیں ، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت موجودہ صورتحال کو احتساب کے نئے اور فیصلہ کن عزم سے ضرور جوڑے تاہم ادراک کرے کہ 8 مہینے ہونے کو آئے ہیں ابھی تک نیب مذکور کیسز ملکی عدالتی تاریخ میں سیاسی افراط وتفریط ، اعصاب شکن کشمکش، شفاف احتسابی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کی طرف گرم سفر ہے۔ منزل ابھی دور ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنی پوری انتخابی مہم کرپشن کے خلاف چلائی اور ان کے بیانات بھی کم و بیش یہی تھے جو ملک سے کرپشن کے خاتمہ کے لیے تھے ،اپوزیشن بھی احتساب سے انکاری نہیں ہے، وہ جوابدہی اور شواہد اور ثبوتوں کے حوالے سے شفاف عدالتی پروسیس کی حامی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتی فیصلوں کا انتظار کیا جائے، قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔سب عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کریں جب کہ حکومت اپنی گورننس پر توجہ دے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کرے کیونکہ اس کا اصل کام یہی ہے۔
The post بیانات نہیں گورننس پر توجہ کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2v7q42g
via IFTTT